اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

12/06/2020

یونیورسٹی پڑھنے کا نقصان

 

جواد عبد المتین  صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری کہ ہمارے تعلمیی ادارے  نوجوانوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔



پاکستان میں ہر نوجوان خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا میٹرک میں ہی خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ،فوجی یا پھر ایک بے روزگار انجنئیر بنے گا۔یہی سپنے دیکھتے دیکھتے وہ انٹر کرتا ہے اور پھر امتحانی نتائج آنے سے پہلے ہی مختلف یونیورسٹیز میں داخلہ کے لئے اپلائی کرنا شروع کر دیتا ۔بجائے اس بات کو جانے کہ وہ کن مضمون میں اچھا ہے اسے کس فیلڈ میں جانا چاہیے ۔ یہی حال میرا ہوا میٹرک میں سائنس اس لئے رکھی کیونکہ دوستوں سے سائنس میں داخلہ لیا تھا انٹر میں آرٹس اس لئے رکھی آسان لگ رہی تھی ۔ بیچلر میں آئی ٹی اس لئے رکھی لگا تو پروگرامر بن جائیں گیں 

ایم ایس میں کمپیوٹر سائنس اس لئے رکھی کہ آئی ٹی میں کوئی ایک آدھی یونیورسٹی پروگرام آفر کرتی ہے اور وہ ہے بہت دور ۔ایم ایس میں سی ایس اس لئے رکھ لیا کہ اب نیٹ ورک کی فیلڈ میں ریسرچ کریں گیں لیکن اب حال یہ ہے کہ یونیورسٹی کا سارا زور ہے میشن لرنگ اور آرٹی فیشل انٹیجلیس پر ۔

 ان سے بات کرو تو کہتے ہیں اگلے سمییٹر میں ایک سبجیکٹ نیٹ ورگنگ کا آئے گا۔اب اسی امید پر ہیں کہ اونٹ کہ منہ میں زیرا ہی سہی ۔ اس ساری صورتحال میں اب سلسلہ یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں واہ اسفند واہ یہ کام کر دیا ۔ لیکن جب کبھی سوچتا ہوں ہو تو بہت شرمندہ ہوتا ہوں کہ کرنا کیا چاہتا تھا ہو کیا گیا۔ میں ہمیشہ سے کاروباری لائن کی طرف جانا چاہتا تھا ۔ لیکن مہارت آئی ٹی میں تھی سوچا کہ یونیورسٹی میں جائیں گیں یہ سافٹ وئیر بنائیں گیں یہ کام کریں گیں۔ اردو میں کمپائلر بنائیں گیں اس اس موضوع پر کتابیں لکھیں گیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا  کہ پاکستان میں کسی بھی شخص کو جانچنے کا معیار صرف اور صرف اس کی تعلیمی ڈگری ہے ۔اگر آپکے پاس تجربہ ہے تعلیم نہیں تو کمپنی کی پالیسی کہہ کر ٹھکرا دیا جاتا ہے ۔ اگر کاروربار کرنے لے لئے لائسنس لینے جائیں تو آپکو شرائط پوری کرنے کے لئے کسی پڑھے لکھے بندے کو نوکری دینی پڑتی ہے۔

لیکن ان سب باتوں سے بالاتر ہو کر میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ مجھے یونیورسٹی کی ڈگریوں نے کاغذ کے ایک ٹکرے کے علاوہ کچھ نہیں دیا ماسوائے اس کہ   کہ تعلیم کے نام پر میرا وقت برباد کیا۔ آپ یقین جانیں جو کچھ بھی سیکھا فیلڈ سے سیکھا۔ خود میرا حال یہ تھا کہ جب میں سائٹ انجنئیر تھا میرے پاس ڈگری تھی جبکہ میرے پاس  کام کرنے والے میٹرک پاس  کے پاس تجربہ اور مہارت تھی ۔لیکن افسوس کہ اسکے پاس ڈگری نہیں تھی ۔

یہی سوچ کر اکیڈمی بنائی کہ طلباء کو وہ کام سکھائیں گیں جو انہیں یونیورسٹی جانے سے پہلے سیکھنے چاہیے۔ لیکن طلبا کا اسرار اس بات پر ہوتا تھا کہ ہمیں وہ سکھائیں جو پیپر میں آئے گا۔مجھے آج تک کوئی ایسا طالب علم نہیں ملا ماسوائے ان کے جو ڈگری نہیں کر رہے جس نے کہا ہو مجھے یہ اضافی چیز بتائیں ۔ یہ کام کیسے ہو گا کیوں ہو رہا کیسے کر سکتے ہیں۔

یہ سوچ فیل ہوئی تو سوچا جو ہمارے پاس علم ہے اس کو کتابی شکل دیتے ہیں پہلے بلاگ پر لکھ لیتے تھے لیکن پھر پتہ چلتا تھا کہ سب ککچھ ہمارا نام کسی اور کا ۔اور ہمارے لکھے پر ہمیں جھوٹا ثابت کیا جانے گا۔ حتٰی کہ میرے یونیورسٹی کے ٹیچرز میری تحریریں پڑھ کر ہی مجھے دلیلں پیش کرنے لگے ۔انکا مثبت اثر آنے لگا تو سوچا کہ کتاب لکھی جائے ۔ اب  پہلی کتاب لکھی ہے اتنا سکون ہے عوام دعاوں کے میسج بیجھتی ہے ۔ لہذا اب  سے ہم نے اصول پکڑ لیا ہے یونیورسٹی جاتی  ہے جائے بھاڑ میں  ۔لوگ جو کہتے ہیں کہیں لیکن اب کام وہ کرنا ہے جس سے میں خوش رہ سکوں ۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج الحمدا نیٹ ورکنگ کی کتاب کو لکھنا شروع کر دیا ہے۔اور انشاء اللہ بہت جلد یہ آپکے سامنے ہو گی۔

تحریر محمد اسفند یار 

نوٹ: جملہ حقوق محفوظ ہیں۔اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔منجانب: حافظ محمد اسفند یار

4 تبصرے:

  1. بہت اچھی سوچ ہے۔اللہ پاک ارادے اور مقصد میں کامیابی عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. "اب پہلی کتاب لکھی ہے اتنا سکون ہے عوام دعاوں کے میسج بیجھتی ہے ۔"
    کونسی لینکس والی کتاب؟

    جواب دیںحذف کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ