یو ای
ٹی لاہور میں اس مرتبہ
تین کلاسز کو پڑھانے کا اتفاق ہوا جو بہت عمدہ تجربہ رہا- اس بار بھی ہمیشہ کی طرح
بے شمار نئی چیزیں سیکھیں-
بطور مدرس ، کچھ اصول
میں نے پہلے دن سے اپنائے رکھّے:
1-طلبا کو بتایا کہ
تکنیکی علم آپ کو ضرور حاصل کرنا چاہیے- فیلڈ کا انتخاب البتہ آپ نے خود کرنا ہے-
2- جبری تعلیم کی بجائے
شوقیہ تعلیم کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کی- طلباء کو شروع ہی سے آگاہ کر دیا کہ
غیر حاضری اور نمبرز کی فکر بالکل نہیں کرنی- جس نے میری کلاس میں آنا ہے آئے،
نہیں آنا نہ آئے- جس نے پیپر دینا ہے دے ، نہیں دینا نہ دے-
3- میرا پیپر اوپن بک ہو
گا- طالب علم اپنا پیپر خود چیک کرے گا اور خود ہی اپنی مرضی کے نمبر لگا کر واپس
کر دے گا-
4- کلاس میں آتے ہی پہلے
دن بچوں سے کہتا ہوں کہ ایک خط لکھیں کہ مجھے آپ نے داخلہ کیوں لیا؟ میں کیا کرنا
چاہتا ہوں؟ آپ سے کیا سیکھنا چاہتا ہوں؟ کیسے سیکھ سکتا ہوں؟ پریکٹیکل کتنا ہو؟ تھیوری
کتنی ہو؟ جو کچھ دل میں آئے لکھیں اور آخر میں اپنا نام لکھ دیں-
یہ خط آپ کو سمیسٹر کے
اختتام پر وآپس کردیا جائے گا تاکہ آپ جان سکیں کہ 6 ماہ پہلے آپ کہاں تھے اب کہاں
ہیں؟
5- ایک ماہ کے بعد بچوں سے
ایک فیڈ بیک خط لکھنے کو کہا جس میں ان سے کلاس میں پڑھائی کے کے انداز اور کلاس
کے متعلقہ دیگر مسائل لکھنے کو کہا- نیز بہتری کی گنجائش کہاں ہے اور ہم اس کو
کیسے بہتر کر سکتے ہیں-
یہ ایک بے نامی خط تھا
اور اس سے مجھے بطور استاد بہت فائدہ ہوا-
6- کلاس آسائنمٹ پہ طلباء
کےلیے اپنی طرف سے انعام ضرور رکھا بھلے چائے کا کپ ہی کیوں نہ ہو-
آج جب میں یہاں سے جا
رہا ہوں تو حال یہ ہے جو کچھ یہاں سے کمایا ، اس سے زیادہ لٹا کر جا رہا ہوں- ضمیر مطمئن ہے مگر عقل کہتی
ہے کہ اس سے بہتر بھی ہو سکتا تھا-
اسی بہتری کے لئے آپ
حضرات کی رائے درکار ہے کہ اگر اس عمل میں کوئی کمی کوتاہی ہے تو رائے سے آگاہ
فرما دیں-
الحمدللہ دو کتابوں پر
کام بھی کر رہا ہوں جو جلد مکمل ہو جائیں گیں (انشاء اللہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار