اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

3/02/2021

سموسہ حرام تھا یا میرا علم !

11 سال پہلے

میں جس مدرسے میں حفظ کر رہا تھا اس مدرسے کے باہر عصر کے بعد ایک سموسے بیچنے والا آیا کرتا تھا۔ تب وہ سموسہ 5 روپے کیا دیا کرتا تھا جوکہ ہم طلباء کے لئے ایک سستی عیاشی تھی ۔ہم سب طلباء روزانہ عصر کے بعد اس سے سموسے کھایا کرتے تھے ۔ایک دن اچانک حافظ جی نے اعلان فرمایا کہ یہ سموسے بیچنے والا شیعہ ہے اور شیعہ کا کھانا حرام ہے لہذا اس سے سموسے کھانے سے پرہیز کریں ۔اس دن عصر کی نماز کے بعد جو بے بسی ،اور ناامیدی اس کے چہرے پر دیکھی وہ اس وقت تحریر لکھتے ہوئے میری نظروں میں گوھم رہی ہے۔

10 سال بعد

آج مجھے ریورس انجئیرنگ کی دنیا میں سب سے بہترین یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے۔ لیکن بات یوں ہے کہ اس یونیورسٹی کا ڈین بھی شیعہ ہے اور جس پروفیسر کے پاس میں نے ریسرچ کرنی ہے وہ بھی شیعہ ہے ۔اگر بات یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن میں نے اس مقام تک پہنچنے تک دل سے جن کو استاد کا درجہ دیا ہے ان تین لوگوں میں سے دو شیعہ ہے ۔ آج تک میں اسی کنفیوژن کا شکار ہوں " کہ وہ سموسہ حرام تھا یا میرا حاصل کردہ علم حرام ہے "؟

# 2019 کی ایک تحریر

اپڈیٹ : میرے طلباء میں سے جو اب تک مجھ سے پڑھ چکے ہیں ان میں سے تقریباً 20 سے اوپر شیعہ تھے خدا گواہ ہے کبھی کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ۔اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو شائید ہم آج سے بہتر مسلمان ہوتے ۔

 نوٹ: جملہ حقوق محفوظ ہیں۔اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔منجانب: حافظ محمد اسفند یار


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ