اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

4/27/2021

میں نے کمپیوٹر کیسے سیکھا

 

مجھ سے اکثر استاذہ اور شاگرد یا واقف کار ایک سوال کثرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ سب کچھ تم نے کہاں سے سیکھا ہے ۔ یہ وہ سوال تھا جسکا جواب میں خود نہ دے پایا آج ماجد بھائی نے اپنی 

ایک تحریر میں اس کا جواب دیا ہے ۔



محمد اسفند یار تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے 05 اگست 2011 کا وہ دن جب اردونامہ فورم پر محمد اسفند یار نامی ایک نئے رکن نے رجسٹریشن حاصل کی اور اپنی رجسٹریشن کے ٹھیک تین منٹ بعد ایک سوال داغ دیا کہ “محترم میں بلاگ سپاٹ ڈاٹ کام کے لئے ویب پیجز بنانا چاہتا ہوں کیسے بناؤں پلیز میری مدد کیجئے“۔ یہ وہ پہلی سوالیہ پوسٹ تھی جو اردونامہ فورم پر محترم اسفند یار صاحب نے لکھی اور اس کے بعد سوالات کا سلسلہ تھا جو رکا نہیں۔ کبھی کمپیوٹر کے بارے میں تو کبھی کسی سافٹ وئیر کے بارے میں کبھی کسی ویب سائیٹ کے بارے میں تو کبھی گوگل پر کچھ تلاش کرنے کے بارے میں۔

آج بھی اگر کوئی صاحب اردونامہ فورم پر محمد اسفند یار کی سابقہ تحاریر دیکھئے تو اسے بالکل آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ اس بندے کو نہ تو کمپیوٹر کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ ویب سائیٹس کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ گزر گیا اور تمام انتظامیہ اردونامہ کو یقین ہوتا چلا گیا کہ یہ سوالات اٹھانے والا کوئی عام آدمی نہیں بلکہ کوئی ہے جس کے اندر سیکھنے کی شدید طلب موجود ہے کیونکہ آج وہ کوئی سوال کرتا دکھائی دیتا ہے تو کل اسی موضوع پر اپنے تجربات اردونامہ پر شئیر کرتا نظر آتا ہے ایک کرنٹ تھا اس شخص میں ایک جنون تھا جس میں یہ شخص مبتلاء تھا۔ لیکن افسوس اردونامہ پر چونکہ ایک مختصر سی ٹیم اس طرح کے ٹیکنیکل سوالات کا جواب دینے کے لئے موجود تھی اس لئے اس کے تمام سوالات کا جواب دینا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر میرے ذاتی تجربے میں یہ بات آئی کہ صرف اردونامہ ہی وہ ایک فورم نہیں جہاں پر اس کے مسلسل سوالات آ رہے ہیں بلکہ اور بھی بیسیوں اردو ویب سائیٹس تھیں جن پر ان کے سوالات کا تانتا بندھا ہوا تھا اور یہ شخص اپنے سیکھنے کے جنون کی تکمیل جہاں سے ممکن ہو رہا تھا کر رہا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ اردونامہ فورم پر لوگوں کی دلچسپیاں ختم ہونے لگیں اور ان کی دلچسپیوں کا مرکز دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بن گئے اور شاید اپنے سوالات کے تشفی جوابات نہ پا کر ایک دن یہ نوجوان بھی اردونامہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن پھر بھی گاہے بگاہے اس کا اردونامہ فورم پر آنا جاری رہا اور کچھ فیس بک وغیرہ کی وساطت سے مجھے پتہ چلتا رہا کہ اس کی علمی پیاس ابھی بجھی نہیں تھی اور سیکھنے کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔

کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن میں کچھ تلاش کرتا کرتا ایک بلاگ پر پہنچا جس کا نام اسفند نامہ تھا ذہن میں ایک جھماکہ ہوا اور وہی چلبلا نوجوان یاد آ گیا چونکہ اس سے فون نمبر کا تبادلہ بہت پہلے ہو چکا تھا اس لئے فورا اسے پیغام داغ دیا اور پوچھا کہ کیا اسفند نامہ آپ کا بلاگ ہے؟ فورا جواب آیا جی ہاں میرا ہے، بلاگ کی دو چار تحاریر پڑھ کر ہی ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ کیا یہ وہی کھلنڈرا سا لڑکا ہے جس نے ابھی چند ماہ پہلے تک اپنے سوالات سے ہمارا ناطقہ بند کر رکھا تھا کیونکہ اس بلاگ پر وہ اپنے بہترین علمی تجربات شئیر کر رہا تھا اور صرف یہ شئیرنگ کی حد تک محدود نہیں تھا بلکہ اس پر تقریبا ہر اس سوال کا مفصل جواب موجود تھا جس یا شاید اسے خود کہیں جواب نہیں مل پایا تھا۔ جی ہاں وہ اسفند اب ایک طالب علم سے زیادہ ایک استاد کے روپ میں نظر آ رہا تھا۔

بہترین قسم کے بلاگ پر لوگوں کے مسائل حل کرنے والا استاد، جو چند ماہ پہلے تک خود ویب سائیٹ بنانے کا طریقہ پوچھ رہا تھا وہ ایک بہترین ویب سائیٹ کا مالک تھا اور لوگوں کی علمی پیاس بجھا رہا تھا۔ خیر کچھ حیرت ہوئی کچھ فخر ہوا کہ چلو کوئی تو ہے جو اس میدان میں اردو ویب سائیٹس سے کچھ سیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس نوجوان نے اپنا روزگار بھی کمپیوٹر سے منسلک کر لیا ہے اور نیٹ ورکنگ جیسے شعبے میں سے اپنا رزق تلاش کر رہا ہے۔

پھر وقت گزرتا چلا گیا کبھی کبھار اس سے ایک آدھ جملے کا تبادلہ ہوتا رہا ہے صرف اس حد تک کہ اردونامہ کی وجہ سے ایک دوست اسفند نام کا موجود ہے لیکن پھر ایک دن اس کا فون آیا اور اس نے میرا پوسٹل ایڈریس پوچھا، استفسار پر بتایا گیا کہ ایک کتاب بھیجنا چاہتا ہے اور رائے طلب کرنا چاہتا ہے، پوسٹل ایڈریس دے دیا گیا اور چند دن میں ایک کتاب موصول ہوئی، لفافے سے کتاب نکالتے ہی جانئے کہ حیرت کا ایک جھٹکا لگا کیونکہ ٹائٹل پر محمد اسفند یار کا نام بطور مصنف لکھا نظر آیا اور کتاب کا موضوع اس سے بھی زیادہ حیران بلکہ پریشان کر دینے والا تھا، جی ہاں کتاب کا موضوع تھا “لینکس آپریٹنگ سسٹم”۔

خیر کتاب پڑھنی شروع کر دی تو حیرت بڑھتی ہی گئی اور دل ماننے کو تیار ہی نہ ہوا کہ وہ نوجوان جو ونڈوز کے بارے میں کچھ سال پہلے کچھ نہیں جانتا تھا وہ لینکس کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جان گیا، کتاب بھیجنے کے ساتھ ہی ان کی ایک خواہش تھی کہ میں اس کتاب کا جائزہ لے کر اپنا تبصرہ لکھوں۔

کسی بھی کتاب پر تبصرہ لکھنا ایک مکمل فن ہے ،جس کے اپنے اصول وضوابط،قوانین وقاعدے اور تقاضے ہیں۔آجکل کے زمانے میں جہاں ہر شخص تن آسانی کا شکا رہے اس لیے محنت سے جی چراناایک عام سی بات ہے،یہی معاملہ تبصرہ نگاروں کے تبصروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تبصرے کے لیے آئی ہوئی کتاب کو صرف دیکھ کراس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔جو تبصرہ کم بلکہ اس کتاب کے شائع ہونے کی اطلاع اور اس کا ایک مبہم تعارف تو ہو سکتا ہے لیکن تبصرہ ہرگز نہیں۔ ایک تو میں اس فن میں ماہر نہیں ہوں دوسرا کچھ وقت کی کمی کہ کتاب پڑھنے میں بہت دیر لگی تیسرا کتاب ایک ایسے موضوع پر تھی جسے زندگی میں شاید ایک بہت مشکل کام سمجھ کر اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے بارے میں کہیں سے معلومات ہی حاصل کر لی جائیں یہی وجہ تھی کہ دوستوں میں شاید میں وہ آخری دوست رہ گیا تھا جس نے ابھی تک اس کتاب کے بارے میں لکھنے کے لئے اپنے قلم کو جنبش نہ دی تھی۔

خیر کتاب پڑھنی شروع کر دی تو حیرت بڑھتی ہی گئی اور دل ماننے کو تیار ہی نہ ہوا کہ وہ نوجوان جو ونڈوز کے بارے میں کچھ سال پہلے کچھ نہیں جانتا تھا وہ لینکس کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جان گیا، کتاب بھیجنے کے ساتھ ہی ان کی ایک خواہش تھی کہ میں اس کتاب کا جائزہ لے کر اپنا تبصرہ لکھوں۔

کسی بھی کتاب پر تبصرہ لکھنا ایک مکمل فن ہے ،جس کے اپنے اصول وضوابط،قوانین وقاعدے اور تقاضے ہیں۔آجکل کے زمانے میں جہاں ہر شخص تن آسانی کا شکا رہے اس لیے محنت سے جی چراناایک عام سی بات ہے،یہی معاملہ تبصرہ نگاروں کے تبصروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ تبصرے کے لیے آئی ہوئی کتاب کو صرف دیکھ کراس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔جو تبصرہ کم بلکہ اس کتاب کے شائع ہونے کی اطلاع اور اس کا ایک مبہم تعارف تو ہو سکتا ہے لیکن تبصرہ ہرگز نہیں۔ ایک تو میں اس فن میں ماہر نہیں ہوں دوسرا کچھ وقت کی کمی کہ کتاب پڑھنے میں بہت دیر لگی تیسرا کتاب ایک ایسے موضوع پر تھی جسے زندگی میں شاید ایک بہت مشکل کام سمجھ کر اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے بارے میں کہیں سے معلومات ہی حاصل کر لی جائیں یہی وجہ تھی کہ دوستوں میں شاید میں وہ آخری دوست رہ گیا تھا جس نے ابھی تک اس کتاب کے بارے میں لکھنے کے لئے اپنے قلم کو جنبش نہ دی تھی۔

پھر ایسا ہوا کہ اسفند یار کے کئی پیغامات آئے اور ان کے آخری پیغام میں انہوں نے لکھا کہ مجھے تبصرہ لکھنا ہی ہو گا کہ وہ میرے تبصرے کا بہت شدت سے انتظار کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک میرے تبصرے کی بہت اہمیت ہے اس کی شاید وجہ یہی رہی ہو گی کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس پلیٹ فارم سے انہوں نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے اس پلیٹ فارم والوں کا اس کی اس کامیابی کے بارے میں کیا کہنا ہے۔

چونکہ بغیر پڑھے تبصرہ کرنا کم ازکم میرے لئے ممکن نہ تھا اس لئے بڑی محنت کر کے یہ کتاب پڑھی اور آج اس قابل ہوا کہ اس کا ایک جائزہ پیش کر سکوں، لینکس آپریٹنگ سسٹم ایک مفت اور اوپن سورس آپریٹنگ سسٹم ہے اور آپ اس کو انٹرنیٹ سے ڈاؤنلوڈ کر کے اپنے کمپیوٹر میں انسٹال کر سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف مفت ہے بلکہ اوپن سورس بھی ہے یعنی آپ اس کا کوڈ بھی نیٹ سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں اور اس میں مختلف تبدیلیاں کر کے نئے نام سے ایک نیا آپریٹنگ سسٹم جاری کر سکتے ہیں۔ میرے لئے لینکس آپریٹنگ سسٹم سیکھنا ہمیشہ سے ایک خواب ہی رہا ہے جو کبھی بھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا جس کی بڑی وجہ اس آپریٹنگ سسٹم کو سیکھنے کے لئے کوئی استاد میرے ارد گرد موجود نہ ہونا ہے۔ اور میں سمجھتا تھا کہ شاید میں اسے کبھی بھی سیکھ نہ پاوں گا کیونکہ ایک ایسا آپریٹنگ سسٹم جس میں ہر لمحے کمانڈز استعمال کرنا پڑتی ہیں وہ بھلا صرف پڑھنے سے کیسے سیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن آفرین ہے محمد اسفند یار پر کہ انہوں نے شاید لینکس آپریٹنگ سسٹم کے تعارف کے ساتھ اس کے مکمل استعمال کر سکھانے کے لئے پاکستان کی پہلی ایسی کتاب لکھی ہے جس میں نہ تو مشکل تکنیکی اصطلاحات کا استعمال کیا ہے اور نہ ہی اسے لکھتے ہوئے انداز ایسا اپنایا ہے جیسا اکثر سکھانے والے اپناتے ہیں کہ شاید سیکھنے والا بنیادی باتیں پہلے ہی جانتا ہو گا بلکہ اس کتاب میں انتہائی بنیادی معلومات سے شروع کر کے اس آپریٹنگ سسٹم کو انتہائی پیچیدہ طریقوں سے استعمال کرنے تک کا احاطہ کیا ہے جس سے قاری صرف کتاب پڑھنے سے ہی لینکس آپریٹنگ سسٹم پر مکمل مہارت حاصل کر سکتا ہے۔

میری تحریر پڑھنے والے یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آیا وہ لینکس سیکھیں ہی کیوں جب انہیں ونڈوز پر مکمل عبور حاصل ہے، تو ان احباب کے لئے بتاتا ہوں کہ کمپیوٹر میں دلچسپی رکھنے والے ان تمام احباب کے لئے جو اسی فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان سب کے لیے بہت ہی ضروری ہے کہ ان کو لینکس آتی ہو۔ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی کمپینیز لینکس پر منتقل ہو رہی ہیں، جیسا کہ ناسا، میکڈونلڈ وغیرہ۔ حتی کہ امریکہ سکیورٹی ڈیفینس ادارہ بھی لینکس استعمال کر رہا ہے اور اس کا استعمال اتنا بڑھ رہا ہے کہ آنے والا دور شاید صرف لینکس کا ہی رہ جائے گا جیسے ایک دور میں نوکیا اور سامسنگ کے موبائل آپریٹنگ سسٹمز سے آگے ہمارے لئے سوچنا بھی مشکل تھا اور انڈروئیڈ کے آنے سے ان سسٹمز کا نام و نشان ہی مٹ گیا بالکل ایسے ہی لینکس آنے والے سالوں میں اپنی جگہ بناتا نظر آتا ہے۔

اگر آپ ویب یا کمپیوٹر کے مستقبل میں جانا چاہتے ہیں اور آپ نوکیا کہ طرح اپنا مستقبل تاریک ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تو آپ کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ کو لینکس کے بارے میں کم ازکم اتنا علم تو ضرور ہو کہ آپ جب چاہیں یا جب آپ کے لئے یہ ضروری ہو جائے تب آپ اسے استعمال کر سکیں تو امیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لئے اسفند یار کی کتاب سے زیادہ بہترین کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے جس میں انتہائی آسان زبان میں شروع سے آخر تک ہی بات کی مکمل وضاحت موجود ہے اور اردو زبان میں اس موضوع پر اس سے شاندار کتاب میری نظر سے کوئی نہیں گزری۔

میری تحریر پڑھنے والے یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آیا وہ لینکس سیکھیں ہی کیوں جب انہیں ونڈوز پر مکمل عبور حاصل ہے، تو ان احباب کے لئے بتاتا ہوں کہ کمپیوٹر میں دلچسپی رکھنے والے ان تمام احباب کے لئے جو اسی فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان سب کے لیے بہت ہی ضروری ہے کہ ان کو لینکس آتی ہو۔ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی کمپینیز لینکس پر منتقل ہو رہی ہیں، جیسا کہ ناسا، میکڈونلڈ وغیرہ۔ حتی کہ امریکہ سکیورٹی ڈیفینس ادارہ بھی لینکس استعمال کر رہا ہے اور اس کا استعمال اتنا بڑھ رہا ہے کہ آنے والا دور شاید صرف لینکس کا ہی رہ جائے گا جیسے ایک دور میں نوکیا اور سامسنگ کے موبائل آپریٹنگ سسٹمز سے آگے ہمارے لئے سوچنا بھی مشکل تھا اور انڈروئیڈ کے آنے سے ان سسٹمز کا نام و نشان ہی مٹ گیا بالکل ایسے ہی لینکس آنے والے سالوں میں اپنی جگہ بناتا نظر آتا ہے۔

اگر آپ ویب یا کمپیوٹر کے مستقبل میں جانا چاہتے ہیں اور آپ نوکیا کہ طرح اپنا مستقبل تاریک ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تو آپ کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ کو لینکس کے بارے میں کم ازکم اتنا علم تو ضرور ہو کہ آپ جب چاہیں یا جب آپ کے لئے یہ ضروری ہو جائے تب آپ اسے استعمال کر سکیں تو امیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لئے اسفند یار کی کتاب سے زیادہ بہترین کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے جس میں انتہائی آسان زبان میں شروع سے آخر تک ہی بات کی مکمل وضاحت موجود ہے اور اردو زبان میں اس موضوع پر اس سے شاندار کتاب میری نظر سے کوئی نہیں گزری۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ