اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

7/26/2020

شدت پسند سے اعتدال پسند کی طرف میرا سفر حصہ دوم

اصولاً تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ میں استاد محترم پر غصہ کرتا لیکن میں نے ان سے علمی مباحثہ شروع کر دیا ایک طرف ابوبکر صاحب مجھے قانون کو ماننے اور ریاست کی اہمیت بتاتے تو دوسری طرف اشرف شاکر صاحب مجھے افغان جہاد کے نام پر ہونے والی ایک پرائی جنگ کے نقصانات سے اگاہ کرتے ۔جب کالج سے باہر آتا تھا جماعتی سرگرمیوں اور ریلیوں کے علاوہ کوئی مصروفیت نہ تھی ۔ایک دن اسی بات پر استاد محترم سے تھوڑی سی بدتمیزی ہوگئی ۔ اللہ پاک انکی عمر دراز کرے ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے انہوں نے بجائے غصہ کرنے کے ایک نئی منطق سنا دی کہ اگر تمہیں یہ نظام اتنا ہی برا لگتا ہے تو تم اس پر قربان ہونے کی بجائے اس کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ لہذا اس کے بعد میری ذہین سازی شروع ہو گئی ۔انہی دنوں میں جب سال مکمل ہونے کے قریب تھا تو استاد محترم نے بڑے پیارے کے ساتھ کچھ الفاظ کہے " میں چاہتا ہوں تو سی ایس ایس کرو ۔اس قوم کو تمہارے جیسے نواجواں کی ضرورت ہے جو ملک سے ہمدردی رکھتے ہوں اور ساتھ میں دین کا علم بھی تاکہ اس ملک کی بنیادیں قائم رہیں۔ رمہارے لئے کسی کا کمپیوٹر ٹھیک کر دینا کسی کو انٹرنیٹ کا کنیکشن لگا دینا بہت بڑی بات ہو گی ۔ لیکن میں چاہتا ہوں تم ان فضول کے کاموں کو چھوڑ کر اپنی تعلیم پر توجہ دو"۔ میں نے استاد محترم سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہو گا۔اور مکمل توجہ کے ساتھ پڑھائی شروع کر دی ۔


احباب جانتے ہیں ملک پاکستان میں آپریشن ضرب عضب سے پہلے محرم الحرام میں دھماکھے اور فائرنگ کے تبادلے عام ہوا کرتے ہیں مولا رکھے سلامت نواز شریف کو جس نے عسکری تنظیموں پر پابندی لگا کر نہ جانے کتنے ہی نوجوانوں کو اندھی قربانی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا۔ ہو کچھ یوں انہی دنوں محرم الحرام کا آغاز ہوا۔ کچھ بدبختوں نے سیدنا عمر الفارق رضی اللہ عنہ کا پتلہ بنا آگ لگا دی ۔اس وقت سوشل میڈیا کا دو تو نہ تھا لیکن اگلے دن دوپہر تک یہ خبر پورے پورے علاقے میں پھیل چکی تھی ۔انتظامیہ دباؤں میں آ کر کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے انکاری تھی کہ یہ پتلا ایک مکان میں چار دیواری کے اندر جلایا گیا ہے لہذا ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔ شام تک سپاہ صحابہ کے کارکنان مٹ مرنے کو تیار تھے مگر انتظامیہ بات تک سننے کو تیاری نہیں تھی اور تمام کی تمام توجہ جلوس کے روٹ پر تھی ۔اسی رات انتظامیہ پر دباؤں بڑھانے کا فیصلہ ہوا ۔ اور یوں اسفند یار صاحب پر کی گئی ساری محنت رائیگاں گئی اور اسفند یار ایک بار پھر سے مرنے کے عظم کو لے آدھی رات کو گھر سے نکل پڑا۔

اسفند یار کے اسی عظم اور کمپیوٹر میں مہارت کو دیکھتے ہوئے ضلع کا اطلاعت و نشریات منتخب ہوا۔ انہی دنوں ہوا اتنی خراب تھی کہ دو پستول پاس ہونا عام سی بات تھی پستول کو ٹھیک کرنا اور بار بار کھول کر تیل لگانا ۔اجلاس میں شرکت کرنا قربانی کی کالیں اکھٹی کرنا اپنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ بن چکا تھا۔ اس کے بعد پے درپے کچھ واقعات ہوئے۔

انہی دنوں ملک اسحاق صاحب اور غلام رسول شاہ صاحب کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اور جماعت میں قیادت پر اختلافات شروع ہو گئی ۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ لوگ دنیا کی کسی دوسرے کونے میں موجود ہوں تو سب سے زیادہ محبت اپنے آبائی علاقے کے آدمی سے کریں گیں اور جب آبائی  علاقے میں موجود ہوں تو ان سے بڑا ایک دوسرے کا مخالف کوئی نہیں ہوتا(عام طور پر اس کو شریکا کہا  جاتا ہے)میری دلی ہمدردی ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ کے ساتھ تھی ایک وجہ ہمارا آبائی علاقہ ایک ہونا تھا لیکن موجودہ علاقے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں لدھیانوی گروپ میں شمولیت اختیار کرنا پڑی جو میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی اور فائدہ مند بھی ثابت ہوئی۔

اس سے پہلے میری یہی آرزو ہوتی تھی  کہ کسی انجان راہ میں مارا جاؤں۔ فلاں جگہ پر کاروائی کروں۔ اتنے مہینے کی ٹرینگ کر لو کاش میری جسم میں اتنی گولیاں لگیں کہ لاش پہچان ہی نہ ہو۔لدھیانوی گروپ میں آنے کے بعد یہ سوچ کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی۔وجہ یہ تھی کہ لدھیانوی پالیسی کے مطابق جو کام کیا جائے وہ ریاستی پالیسی کے اندر رہ کر کیا جائے۔اور جو لوگ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں انہیں انیٹلی جنس ادراوں کے حوالے کیا جائے۔یہی وجہ تھی کہ جماعتی سرگرمیاں نہ ہونے کہ برابر رہ گئی تھیں ۔

خیر قصہ مخصر ملک اسحاق اپنے ساتھیوں سمیت ماورائے عدالت قتل کر دیئے گئے ۔اور ہمارے جذبات مشتعل تھے مگر راہ کوئی نہ تھی ۔آپریشن ضرب عضب شروع ہو چکا تھا اور ہر قسم کی جماعتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہو  چکی تھیں۔انہی دنوں داعش کا نیا نیا ظہور ہوا اور انہوں نے نئی نوجوان نسل کو انٹرنیٹ پر تربیتی ویڈیوز فراہم کرنا شروع کر دیں۔اب بس اسفند کے پاس دو ہی کام تھے داعش کے ترانے سننا اور ان کے فورمز (ان فورمز کو چلانے کے لئے ایک خاص آپریٹنگ سسٹم اور خاص براؤزر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بارے میں آپ میرے بالگ پر پڑھ سکتے ہیں۔) پر انٹرنیٹ سمیت دوسری چیزوں کی ٹرینگ لینا۔ یہیں پر میں نے ریموٹ کنڑول سمیٹ دوسری بنیادی پروگرامنگ سیکھی۔ اور سپائی وئیر مال وئیر ، انکرپشن ، وئرلیس نیٹ ورکنگ کے بارے میں بہت کچھ جانا۔یہیں سے میں نے عربی فورمز پر جانا شروع کیا جہاں سے اتنا علم ملا کہ جماعت، شہادت نماز سمیت تمام کیڑے مر گئے اور صرف اور صرف ایک کیڑا پیدا ہوا کہ کمپیوٹر ایکسپرٹ بننا ہے۔

اسی جستجو میں پڑھائی کو دوبارہ سے اچھے انداز میں مکمل کرنے ایسا آغاز ہوا کہ میں اور میرا دوست رات 3 بجے تک بیٹھ کر انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تیاری کیا کرتے تھے۔ یہاں پر استاد محترم ابوبکر صاحب کے دوست (اہل تشیع جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے)انہوں نے اپنے انگلش نوٹس کی سافٹ کاپئ مہیا کی کہ یہ زندگی میں پہلی بار کسی کو سافٹ کاپی دی وگرنہ یہ نوٹس صرف اور صرف مخصوص فوٹو کاپی شاپ سے ہی ملتے تھے۔آج بھی میں انکا مشکور ہوں کہ ان کے بنائے ہوئے نوٹسوں کی وجہ سے میری انٹرمیڈیٹ کی انگلش کلئیر ہوئی۔

تحریر محمد اسفند یار 

نوٹ: جملہ حقوق محفوظ ہیں۔اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔منجانب: حافظ محمد اسفند یار


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ