اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

7/26/2020

شدت پسند سے اعتدال پسند کی طرف میرا سفر حصہ اول

سال 2010 جب میں سے مدرسے کو خیر آباد کہہ کر دنیاوی تعلیم کی طرف رجوع کیا تو ذہن میں ایک بات بیٹھ چکی تھی کہ یہ دنیا کی پڑھائی تو ہے ہی بہت آسان ہے۔ لہذا جب آٹھویں جماعت کا امتحان دیا تو سکول میں غالباً 5 یا چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس کے بعد اگے کا مرحلہ تھا کہ نہم جماعت میں کمپیوٹر کی فیلڈ کا انتخاب کیا جائے یا بائیولوجی کا مضمون رکھا جائے۔ قصہ مختصر کہ جب خود سے کوئی فیصلہ نہ بن پایا تو دیکھا کہ زیادہ تر دوستوں نے بائیولوجی کا مضمون رکھا ہے تو ہم نے بھی بائیولوجی کا مضمون رکھ لیا۔

نصابی کتابوں میں فزکس کی طرف اور بائیولوجی کی طرف زیادہ رجحان تھا نتیجہ یہ نکلا کہ نہم میں انگلش اور کمیسٹری میں پاس نہ ہو سکا۔ یوں یہاں سے کلاس میں آگے کی نشست سے اٹھ کر کلاس کی آخری نشست پر جانا پڑا۔ رہی سہی کسر اس دور میں سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت نے پوری کردی۔قصہ مختصر اس دور میں اللہ پاک بھلا کر ہمارے دو معزز دوست بھائی عثمان اور سفیان کا جنہوں نے ہمیں مفت میں اپنی خدمات فراہم کی اور انکی کاوشوں کے نتیجہ میں میٹرک پاس ہوا۔


یہاں پر سفیان کے پڑھانے کے انداز نے میری زندگی کو بد دیا ( یہ بات آج تک اس کو کہہ نہیں پایا) اسکا انداز یہ تھا کہ وہ فزکس کی کتاب کو کھولنے سے پہلے کسی بھی چیز کے کام کرنے کا طریقہ کار سمجھا دیتا تھا کہ یہ چیز اس طریقہ کار سے ہماری عملی زندگی میں کام کر رہی ہے۔ اور یہ کام یوں ہو سکتا تھا لیکن اب آپ نے یہ بتانا ہے کہ یہ کام کیوں ہوا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ہمیں فزکس اور بائیولوجی تو یاد ہو گئی لیکن ایک چیز کا کیڑا پیدا ہو گیا کہ یہ کام کیوں ہو رہا ہے اور کیسے ہو گا۔ اس بات کا جواب میرے ارد گرد موجود لوگوں کے پاس نہیں تھا لہذا اس وقت انٹرنیٹ پر موجود اردو فورمز ( اردو نامہ، کمپیوٹنگ، پاک نیٹ، آئی ٹی کی دنیا، وغیرہ وغیرہ ) پر جانا شروع کر دیا۔ یہاں پر عجیب و غریب سوال پوچھنے شروع کیئے جیسے اس وقت وائی فائی نیا نیا آیا تھا اور 2 جی انٹرنیٹ کا زمانہ تھا تو میں نے ایک پوسٹ کی یہ تو جادو ہو گیا موبائل میں بغیر سم کے انٹرنیٹ چل رہا ہے۔ یہاں سے ایک نہ سیکھنے والا سلسلہ شروع جو آج تک جاری ہے۔یہاں تک کہ ایک بار ایک تحریر میں GPS پڑھ لیا بس پھر دو ہفتے مختلف فورمز پر یہی پوچھنے میں لگا دئے کہ جی پی ایس کیا ہوتا۔

حصہ دوم

جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا کہ میٹرک میں سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے ساتھ ساتھ جیش محمد اور جماعت الدعوہ سے بھی وابستگی ہو گئی۔ اسی زمانہ میں اپنا انٹرنیٹ کا کاروبار شروع کیا اور ساتھ میں کمپیوٹر سروس کی سہولت بھی دینا شروع کر دی۔ نہ جانے کونسی برکت تھی کہ یہ کام افیون کے کاروبار کی طرح چل نکلا اس زمانے میں جب میرے دوست گھر سے 30 روپے جیب خرچ لیا کرتے تھے تب میں ماہانہ 10 ہزار کمایا کرتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھائی سے دل اُچاٹ ہو گیا اور مکمل توجہ کاروباری اور جماعتی سرگرمیوں کی طرف ہو گئی۔

کہیں ایک بات سنی تھی کہ جب اللہ نے کسی بندے کی رہنمائی کرنی ہو تو عجیب اسباب بنا دیتا ہے۔ یہی واقع میرے ساتھ ہوا انٹرمیڈیٹ میں نا چاہتے ہوئے امی کے زبر دستی کرنے پر اسلامیات ۔ عربی اور کمپیوٹر کے مضامین میں داخلہ لے لیا۔یہاں پر اللہ نے اشرف شاکر جیسے وائس پرنسپل اور چنیوٹ کے ایک پروفیسر صاحب محترم جناب ابوبکر صاحب نے نوازا۔ ابو بکر صاحب کا تبادلہ ہمارے کالج میں ہو گیا۔ جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں بطورِ اسلامیات کے پروفیسر اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ہمارے طلبا کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ سوال پوچھنے سے ڈرتے ہیں۔ استاد محترم نے اکثر باتیں ایسی کرنی کہ جو مجھ جیسے مذہبی شدت پسند کے لئے نا قابل برداشت تھیں لہذا یہاں پر کلاس میں سوال وجواب کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میرے کلاس فیلوز ہمیشہ مجھے کلاس کے بعد کہا کرتے تھے کہ چپ رہا کرو جبکہ میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا استاد محترم غلط ہیں۔

دوسری طرف یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ عربی پڑھنے والے صرف چار لوگ ہیں ۔ اب وائس پرنسپل صاحب پرانے جماعتیے تھے لہذا میں جہاد پر موضوع پر بات کرتا وہ البد جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں میں گزرے وقت کی داستانیں سنانا شروع کر دیتے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان جیسی سوچ افکار طلبا کے لئے درد رکھنے والا انسان نہیں دیکھا۔

استاذہ اکرام سے میرے سوال بڑھتے جا رہے تھے کلاس کا وقت کم ہوتا تھا لہذا شام کے وقت فارغ اوقات میں کبھی کبھار استاذہ اکرام کے پاس جانا شروع کر دیا۔

یہاں پر زندگی میں ایک بہت بڑا موڑ آیا ابوبکر صاحب کے ساتھ رہنے والے دو پروفیسر صاحبان اہل تشیع ہیں۔ میرے یہ بات کسی صورت قابل قبول نہیں تھی کہ میری جوانی جن کو کافر کہنے پر گزر رہی ہے اُستاد محترم انکے ساتھ صرف تعلق نہیں یہ نہیں رکھے ہوئے بلکہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور تمام دنیاوی کام سرانجام دیتے ہیں۔

 تحریر محمد اسفند یار 

نوٹ: جملہ حقوق محفوظ ہیں۔اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔منجانب: حافظ محمد اسفند یار


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ