اردو میں نیٹ ورکنگ کی معلومات کا پہلا اردو بلاگ۔

تازہ ترین

Your Ad Spot

12/15/2019

نماز جناہ کا طریقہ احادیث کے حوالہ جات کے ساتھ

صلاۃ الجنازۃ

1-کوئی بھی کام کرنے سے پہلے نیت کا ہونا ضروری ہے۔(صحیح البخاری:1)۔جنازہ کےلیے بھی نیت واجب ہے۔نیت یہ ہو کہ میں اللہ کی رضا کے لیے اس میت کے لیے اللہ کے حضور دعا کا طالب ہوں کہ وہ اسے بخش دے۔کسی کو دکھانے کے لیے جنازہ 
پڑھنا یہ حرام اور ناجائز ہے۔

یہاں یہ یاد رہے کہ نیت کا تعلق دل کے ارادے کا نام ہے۔زبان سے نیت کرنا(مثلا چار تکبیر نماز جنازہ فرض کفایہ ثناء واسطے اللہ تعالی کے درود نبیﷺ پر اور دعا اس حاضر میت پر منہ کعبہ کی طرف پیچھے اس امام کے )یہ کسی بھی روایت (صحیح ،حسن،ضعیف،موضوع)،صحابی،تابعی،تبع تابعی،کسی امام سے ثابت نہیں ،لہذا یہ بدعت ہے۔اور اجر کو ضائع کرنے والی بات ہے۔
2-اگر میت مرد کی ہو تو امام اس کے سر کے سامنے کھڑا ہو گا۔اور اگر میت عورت کی ہو تو امام اس کی کمر کے سامنے کھڑا ہو گا۔
(سنن ابوداؤد:3194،3195)اسنادہ صحیح
3-نماز جنازہ کیونکہ نماز ہے لہذا اس کے لیے وضو ضروری ہے،اور اگر جنبی ہو تو پہلے نجاست کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔(صحیح مسلم:535)
4-خواتین بھی جنازہ پڑھ سکتی ہیں اگر پردہ کا خاص اہتمام کیا گیا ہو۔ عائشہ رضی اللہ عنھا  سے مروی ہے کہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے۔تو ازواج مطہرات  النبی ﷺ نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لائیں تاکہ وہ بھی ان کا جنازہ پڑھ لیں۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔(صحیح مسلم :2252،2253،2254 )
5-جنازہ مسجد میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔۔(صحیح مسلم :2252،2253،2254 )
6-جنازہ میں چار تکبیرات( صحیح بخاری:1334) پانچ تکبیرات(صحیح مسلم:2216) چھ تکبیرات (سنن الکبری للبیہقی:6942  صححہ البانی)  سات تکبیرات (سنن الکبری للبیہقی:6943 صححه الباني)  نو تكبيرات(شرح معاني الآ ثار :2887 صححه الباني) ثابت هيں ۔ چار  اور پانچ نبیﷺ اور باقی چھ،سات صحابہ سےاور نو تکبیرات نبیﷺ نے صرف ایک بار حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ پر پڑھی۔ لہذا بہتر چار اور پانچ تکبیرات ہیں۔
7- نماز جنازہ سری (سنن النسائی :1991) اور جهري(سنن نسائی:1985،،1988،1989)دونوں طرح ثابت ہے۔
8-ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین یعنی ہاتھ کندھوں یا کانوں تک بلند کرنے ہیں۔(العلل للدارقطنی:ج13ص21 ح:2908اسنادہ صحیح مرفوعا) عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ:11380، جزء رفع الیدین للبخاری:109 صحیح)،قیس بن ابی حازم( مصنف ابن ابی شیبہ:11385،جزء رفع الیدین للبخاری:112صحیح)، نافع بن جبیر( جزء رفع الیدین:114 صحیح)،امام مکحول(جزء رفع الیدین للبخاری:116 حسن) امام زہری(مصنف عبد الرزاق:6357 صحیح، اسکے ساتھ امام عبد الرزاق لکھتے ہیں : و به ناخذ  يعني همارا اسي پر عمل هے۔)،امام حسن بصری(جزء رفع الیدین للبخاری:122 صحیح)، عطاء بن ابی رباح(مصنف عبد الرزاق:6358 صحیح) ان حضرات کے علاوہ اور بہت سے مخلوق سے جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔رحمۃ اللہ علیھم اجمعین۔
 اور جو روایت صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی ہیں وہ ضعیف ہیں۔مثلا سنن ترمذی کی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(ترمذی:1077)وہ ضعیف ہے۔ اس میں ابو فروۃ یزید بن السنان التمیمی  الرھاوی ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب:7727) اور يحيي بن يعلي الاسلمي ضعيف هے (تقريب التهذيب:7677)۔
دوسري روايت (سنن الدار قطني:1832) ميں ابن عباس رضي الله عنه سے مروي هے اس ميں حجاج بن نصير ضعيف هے۔(الطبقات الكبري:7/222) اور اس میں الفضل بن السکن مجہول العین ہے۔ (الضعفاءالکبیرللعقیلی:3/449)
تیسری روایت جو ابان بن عثمان رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ جنازہ میں صرف پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔(جزء رفع الیدین:113) اس روایت میں موسی بن دھقان ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب:6960)
9-پہلی تکبیر (اللہ اکبر)کے بعد تعوذ(سورۃ النحل:98) اور بسم اللہ(سنن النسائی:906صحیح) سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہے،(سنن النسائی:1989،1990،1991،صحیح البخاری:1335)سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر آمین کہنی ہے۔(سنن النسائی:906 صحیح) اور ہر تکبیر کے بعد ذراع پر ہاتھ باندھنے ہیں۔(صحیح البخاری:740)
10-سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی سورۃ،سورۃ الفاتحہ کے ساتھ ملانی ہے۔(سنن النسائی:1989 صحیح) بہتر یہ ہے کہ سورۃ الاخلاص ملائے کیونکہ جنازہ بھی ایک دعا ہے اور دعا کا یہ اسلوب اور مسنون طریقہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمد پھر نبیﷺ پر درود اور پھر دعا کی جائے۔اور جنازے میں بھی یہی اسلوب ہے کہ پہلے حمد پھر درود پھر دعا ۔کیونکہ سورۃالاخلاص میں اللہ کی بہترین حمد اور واحدانیت کا اقرار ہے لہذا یہی بہتر ہے۔
نوٹ: يه جو مشهور هے كه پهلي تكبير كه بعد  سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِك وتبارك اسْمك وَتَعَالَى جدك وَجل ثناؤك وَلَا إِلَه غَيْرك پڑھنا ہے۔یہ ثابت نہیں ہے۔حدیث کی کسی کتاب میں یہ الفاظ جنازے میں پڑھنا ثابت نہیں ہے۔مسند الفردوس للدیلمی کے حوالے سے اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔وہ درست نہیں ہے۔اس میں کئی علتیں ہیں۔پہلی  علت اس کی سند نہیں مل سکی۔اور اگر اس کی سند صحیح بھی ہو تب بھی وہ جنازے میں پڑھنی ثابت نہیں ہے۔
11-پھر دوسری تکبیر (اللہ اکبر)کہنی ہے۔اور درود پڑھنا ہے جو سنت سے ثابت ہو جن میں ایک درود ابراہیمی ہے۔(مصنف عبد الرزاق:6428 صحيح موطا امام مالک:1/228)
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ  عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
(صحیح بخاری:3370)
نوٹ یہ درود جو  عوام میں مشہور ہے۔حَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مِلْحَانَ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، ثنا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ بَنِي الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، وَارْحَمْ مُحَمَّدًا، وَآلَ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ، وَبَارَكْتَ، وَتَرَحَّمْتَ، عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حُمَيْدٌ مَجِيدٌ «.» وَأَكْثَرُ الشَّوَاهِدِ لِهَذِهِ الْقَاعِدَةِ لِفُرُوضِ الصَّلَاةِ "(المستدرک الحاکم:991)
یہ ضعیف ہے اس میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جس نے بیان کیا ہے وہ مجھول ہے ۔
12- پھر تیسری تکبیر(اللہ اکبر) کہیں۔اور میت کے لیے خلوص نیت سے دعا کریں۔ 
 (موطاامام مالک:1/228،مصنف عبد الرزاق:6428 صحيح،سنن ابو داؤد:3199 حسن)
13-مندرجه ذيل دعا ئيں جو نبیﷺ،صحابہ اور تابعین سے جنازہ میں پڑھنا ثابت ہیں۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا، وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ
(سنن ابو داؤد:3201 صحیح)
اللهُمَّ، اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ
(صحیح مسلم:2232)
اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ  وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَمْدِ، اللَّهُمَّ فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(سنن ابو داؤد:3202 صحیح)
اللَّهُمَّ إِنَّهُ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ. وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ. وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ. اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا، فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ. وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا، فَتَجَاوَزْ عَنْ سَيِّئَاتِهِ. اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ
(موطا امام مالک:1/228 صحیح موقوفا عن ابی هريرة رضي الله عنه)
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِهَذِهِ النَّفْسِ الْحَنِيفِيَّةِ الْمُسْلِمَةِ، وَاجْعَلْهَا مِنَ الَّذِينَ تَابُوا، وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ، وَقِهَا عَذَابَ الْجَحِيمِ، وَاسْتَنْصِرُوا اللَّهَ عَلَى عَدُوِّكُمْ
(مصنف ابن ابی شیبة:11366 صحيح موقوفاعلي حبيب بن مسلمة رضي الله عنه)
اللَّهُمَّ أَنْتَ خَلَقْتَهُ، وَأَنْتَ هَدَيْتَهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهُ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسَرِيرَتِهِ وَعَلَانِيَتِهِ جِئْنَا شُفَعَاءَ فَاشْفَعْ لَهُ، فَاغْفِرْ لَهُ
(مصنف ابن ابی شیبة:11365 صحيح مقطوعا عن مجاهد رحمه الله)
 14- جنازہ کے لیے کوئی خاص مقرر شدہ دعا نہیں ہے۔اس لیے جو دعا میت کے لیے چاہیئں پڑھ سکتے ہیں۔(مصںف ابن ابي شية:11367-11374)
15-پھر چوتھی تکبیر(اللہ اکبر)کہیں۔اگر چار سے زائد تکبیرات کہنی ہوں تو آخری تکبیر سے پہلے اور تیسری تکبیر کے بعد ہر تکبیر کے بعد  میت کے لیے دعا پڑھنی ہے۔بہتر یہی ہے کہ چارتکبیرات کہی جائیں۔
16-پھرآخری تکبیر کے بعد صرف دائیں  طرف سلام پھیر دے۔(ایک بار بس)
ایک سلام کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں۔مختصرا:
1-عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سُهَيْلِ بْنِ حُنَيْفٍ يُحَدِّثُ ابْنَ الْمُسَيِّبِ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ يُكَبِّرَ، ثُمَّ يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ يُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُخْلِصَ الدُّعَاءَ لِلْمَيِّتِ، وَلَا يَقْرَأَ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ يُسَلِّمَ فِي نَفْسِهِ عَنْ يَمِينِهِ
(مصنف عبد الرزاق:6428 صحیح)
زہری کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو سعید بن مسیب سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ:نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ آدمی تکبیر کہے پھر فاتحہ پڑھے پھر نبیﷺ پر درود پڑھے پھر میت کے لیے خالص دعا کرے وہ صرف پہلی تکبیر کے بعد قرات کرے گا۔پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھیر دے۔
اس کو امام عبد الرزاق اختصارا 6443 پر بھی لے کر آئے ہیں اور اس کو نقل کرنے کے بعد لکھا۔وَبِهِ نَأْخُذُ یعنی ہم نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔
صحابی اگر روایت بیان کرتے ہوئے یہ کہے کہ سنت یہ ہے تو اس کا مطلب وہ مرفوعا ہے یعنی نبیﷺ کا عمل ہے۔
2- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ «إِذَا صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ فَكَبَّرَ، فَإِذَا فَرَغَ سَلَّمَ عَلَى يَمِينِهِ وَاحِدَةً»
عبداللہ بن عمر  جب جنازہ پڑھتے تو ہاتھ بلند کرتے  اور تکبیر کہتے،جب فارغ ہو جاتے تو دائیں جانب ایک سلام کہتے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:11491 صحیح)
3-امام مکحول الشامی دائیں طرف ایک سلام پھیرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:11506 صحیح)
4-ابراہیم النخعی بھی ایک سلام پھیرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:11496 صحیح)
5-ثَنَا دَاوُدُ بْنُ مِخَرَاقٍ الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ «مَنْ سَلَّمَ عَلَى الْجِنَازَةِ تَسْلِيمَتَيْنِ فَهُوَ جَاهِلٌ»
عبدالله بن مبارك فرماتے ہیں:جو جنازے میں دو طرف سلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے۔
(مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني:ص:218-219)صحیح
6-امام ابن منذر النیساپوری نے اس مسئلہ میں اختلاف ذکر کیا ہے۔اور کہا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جائے۔جیسے احمد بن حنبل،عبد الرحمن بن مہدی،ابن سیرین،سفیان الثوری،وکیع،سفیان بن عیینہ،ابن مبارک ،سعید بن جبیر،حسن بصری،عیسی بن یونس اور امام اسحاق وغیرھم،امام شافعی نے کتاب الجنائز میں کہا چاہے ایک طرف سلام پھیر لے اور چاہے دونوں طرف، اہل رائے اور ایک جماعت دو طرف سلام پھیرنے کی قائل ہے،ان میں ابو اسحاق اور شعبی ہیں ، اور ابن منذر نے اجماع نقل کیا ہے کہ ایک سلام آدمی نماز سے خارج ہو جاتا ہے۔(الاوسط لابن منذر:ج 5 ص446)

یہ تھے چند دلائل ایک طرف سلام پھیرنے کے متعلق ان کے علاوہ اور آثار بھی ہیں۔لیکن اختصار کے پیش نظر ان پر ہی اکتفاء کیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں دو طرف سلام پھیرنے کے دلائل:
1- أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ الزُّوزَنِيُّ، ثنا أَبُو بَكْرٍ الشَّافِعِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنبأ شَرِيكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ، قَالَ: أَمَّنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى عَلَى جِنَازَةِ ابْنَتِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا، فَمَكَثَ سَاعَةً حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُكَبِّرُ خَمْسًا، ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ۔۔۔۔۔الخ
(سنن الکبری للبیہقی: ح6988)
ابراہیم ہجری فرماتے ہیں ہم نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو ان کی بیٹی کے جنازے میں امام بنایا، پس انہوں نے چار تکبیریں کہیں پھر تھوڑی دیر خاموش رہے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ پانچویں تکبیر کہیں گے،(لیکن) پھر انہوں نے دائیں اور بائیں سلام پھرا۔۔۔۔۔الخ
اس میں مندجہ ذیل علتیں ہیں:
1-اس کے راوی إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ ضعیف ہیں۔اما م بخاری  ،حافظ ابن حجر نے لین الحدیث کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ موقوف روایات کو مرفوع بیان کرتا تھا اور جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(کتاب الضعفاءالصغیر للبخاری:ترجمہ 10)،(تقریب التہذیب:252)
2-اس میں شریک القاضی مدلس ہیں  اور عن سے بیان کر رہے ہیں اور سماع کہ تصریح نہیں کی۔

2- وَأَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الرَّازِيُّ الْحَافِظُ، أنبأ زَاهِرُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ زِيَادٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: " ثَلَاثُ خِلَالٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُنَّ، تَرَكَهُنَّ النَّاسُ , إِحْدَاهُنَّ: التَّسْلِيمُ عَلَى الْجِنَازَةِ مِثْلُ التَّسْلِيمِ فِي الصَّلَاةِ "
(سنن الکبری للبيهقي:ح6989)
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
1-حماد بن ابی سلیمان اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد: ج:6ص325)
اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ زید بن ابی انیسہ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا کہ بعد۔
امام ہیثمی نے کہا ہے وَلَمْ يَقْبَلْ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادٍ إِلَّا مَا رَوَاهُ عَنْهُ الْقُدَمَاءُ: شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالدَّسْتَوَائِيُّ، وَمَنْ عَدَا هَؤُلَاءِ رَوَوْا عَنْهُ بَعْدَ الِاخْتِلَاطِ.
حماد کی کوئی حدیث قبول نہیں سوائے ان کے جن کو ان کے قدیم شاگر بیان کریں:شعبہ،سفیان الثوری اور الدستوائی  ان کے علاوہ سب لوگوں نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے۔(مجمع الزوائد:ج1 ص119،120)
2-حماد بن ابی سلیمان مدلس تھے ۔اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
3-ابراہیم النخعی بھی مدلس تھے اور انہوں نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔

لہذا یہ ضعیف روایات حجت نہیں ہیں ،اس لیے راجح قول کے مطابق جنازے میں ایک طرف ہی سلام پھیر ا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

نوٹ: جملہ حقوق محفوظ ہیں۔اس آرٹیکل کو بغیر اجازتِ مصنف کسی اور جگہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔  از محمد اسفند



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے۔قاری کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے ۔اسلئے بلا وجہ بحث سے گریز کی جائے۔
منجانب حافظ محمد اسفند یار

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات کی لسٹ